بلاگ لکھنے کی ابتدا میں آج یہ میرا تیسرا بلاگ ہے  بلاگ لکھنے کی شروعات میں نے اپنے استاد محترم کے کہنے پر کی ان سے پہلے بھی کچھ دوست احباب نے مجھے تحریر لکھنے کی ترغیب دی تحریر شائع کرنے  پر میرا نظریہ میرے استاد محترم سے بلکل مختلف تھا وہ کہتے ہیں کہ تم بہت بہترین بلاگ لکھ سکتی ہوں لیکن مجھے یہ کام ہر کام سے مشکل ترین محسوس ہوتا ہے میرے استاد محترم نے تقریباً مجھے سات سے آٹھ مرتبہ بلاگ لکھنے کے لیے کہا تو ان کے بےحد اسرار پر مجھے بہت شرمندگی محسوس ہوئی اور  آخر کار مجھے اپنے لفظوں کو ترتیب دے کر قلم سے کاغذ پر اتارنے کی شروعات کرنی ہی پڑی اردو کا ایک مشہور مقولہ ہے کہ "تلوار سے زیادہ طاقتور قلم"   کیونکہ کہ قلم سے انسان ہر چیز کو فتح کر سکتا ہے قلم ہی تو ہے بادشاہوں کو بادشاہ بنانے والا ان کی سلطنت گرانے والا ،تہذیبوں کو بدلنے والا تاریخ رقم کرنے والا بلکہ مبالغہ آرائی نہ کی جائے تو یہ کہنا جائز ہو گا کہ دنیا جس کے دم سے پروان چڑھی وہ قلم ہی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ قلم ایک بہت طاقتور ہتھیار ہے 
لیکن بہت افسوس سے یہ کہنا پر رہا ہے کہ آج کے دور میں یہ ہتھیار زوال پزیر ہے اور میرے استاد محترم  شاید مجھےاسی ہتھیار کا استعمال کرنا سکھانا چاہتے ہیں اور روز میں خود سے یہ سوال کرتی ہوں کہ کیا میں اپنے استاد صاحب کی امیدوں پر پورا اتر پاؤ گی یا نہیں لیکن ابھی تک میں خود سے کوئی تسلی بخش جواب حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی اسی کشمکش میں کئی دنوں سے میں کچھ نہ کچھ لکھنے کی سوچ میں مبتلا رہتی ہوں تو آج سوچا کیوں نہ لکھنے کے بارے میں ہی لکھا جائےابھی لکھنے کے فن  میں مجھے زیادہ مہارت حاصل نہیں لیکن ایک دو تحریر لکھنے سے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ قلم اور کاغذ کے درمیان لفظوں کو ترتیب دینا بھی ایک الگ ہی احساس ہے اور آج مجھے اپنے وہ دن یاد آگئے جب میں آئی ۔سی۔ایس کے امتحان سے فارغ ہوئی تو مجھ میں شعر و شاعری کرنے کا ایک الگ ہی شوق پیدا ہوا چند ایک نظمیں لکھنے کے بعد یہ سوچ کر لکھنا چھوڑ دیا کہ اردو ادب سے تو میرا کوئی لینا دینا ہی نہیں پھر وہ دن اور آج کا دن مجھے ایک نئی سوچ میں مبتلا کر رہا ہے کہ شاید میں واقع بہترین لکھاری بن سکتی ہوں