زندگی کے سفر میں ہر انسان مختلف قسم کے حالات سے گزرتا ہے ہر انسان اپنے مطابق یہ سوچتا ہے کہ اس نے بہتر سے بہترین کیا ہے لیکن اگر اس کےساتھ ساتھانسان اپنی کمزوریوں کے بارے میں سوچے اور اپنی خامیوں پر قابو پانے کی کوشش کرے اور اپنی غلطیوں کو تسلیم کرے تو انسان کے لیے کامیابی کی منزل طے کرنا کوئی مشکل عمل نہیں ہو گا

لیکن اگر آج کل کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم سب ایک ایسے ماحول میں زندگی بسر کررہے ہیں جہاں ہم نے اپنی غلطی تسلیم کرنا سیکھا ہی نہیں ہے ہمارے اردگردلوگوں میں سے بیشتر لوگ اپنی غلطی اور ناکامی کا زمہ دار دوسروں کو ٹھہرا تے ہوئے نظر آئے گے اگر ہم کچھ سیکھ نہیں پاتےتو اس کا زمہ دار بھی ہم فوراً سے سیکھانے والے پر ڈال دیتے ہیں اگر یہاں بات نہ بنے تو کہ دیتے ہیں کہ ہمارے ملک میں تو کوئی وسائل ہی نہیں بچپن سے لے کر اب تک میں نے یہی سنا ہے کہ ہمارے ملک میں وسائل نہیں ہمارے ملک میں زندگی گزارنے کے اچھے مواقع میسر نہیں بلکہ میں خود بھی کافی مرتبہ یہ بات کہ چکی ہوں اور آج مجھے اپنے ان کہے ہوئے الفاظوں پر شرمندگی محسوس ہوتی ہے  اور بےحد افسوس کے ساتھ یہ کہنا پر رہا ہے اگر ہمارے سامنے کوئی کامیابی کی منزل طے کرنے میں اپنا قدم بڑھاتا ہے تو اس کا ساتھ دینے کی بجائےہم لوگ اس کے لیے مشکلات میں اضافہ کرتے ہیں دراصل یہاں ہم سب کو اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے اچھا برا تو سب خود سے ہی ہے تو پھر ناکامی کا زمہ دوسروں کو کیوں ٹھہرا تے ہیں جب کہ نا کامیابی کےزمہ دار صرفاورصرف ہماری اپنی ذات ہے۔قرآن پاک میں ارشاد فرمایا گیا ہے

"اور یہ کہ انسان کیلئے وہی ہوگا جس کی اس نے کوشش کی"

اگر ہم سنجیدگی سے اس بارے میں سوچیں بجائے اس کے کہ آپ کے اردگرد کے ماحول نے آپ کو کیا دیا بلکہ یہ سوچیں کہ آپ نے اپنے اردگرد بہتری لانے میں کیا کردار ادا کیا کامیابی کو حاصل کرنے کے لیے کتنی کوشش کی زیادہ نہیں تو کم سے کم ہم یہی سوچ لیں کے ہم جو کر رہے ہیں وہ پوری ایمانداری سے کر رہے ہیں کیا ہمارا ضمیر مطمئن ہے کیا ہم پوری محنت اور دل سے اپنے کام کو سر انجام دے رہے ہیں تو ہمیں خود بخود اپنی ناکامی کی وجوہات سمجھ آنا شروع ہو جائیں گی اس وقت ہماری نا کامیابی کی اصل وجہ صرف یہی ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کا زمہ دار دوسروں کو ٹھہرا تے ہیں اور اپنی غلطی تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں نا ہم اپنی غلطی تسلیم کرتےہیں اور نہ ہم دل لگا کر محنت کرتے ہیں تو ایسے میں ہم اپنے اردگرد کے ماحول پر کیا اثر ڈال رہے ہیں یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب شروعات ہی ہم خود سے نہیں کرتے تو دوسروں کو زمہ دار کن وجوہات کی بنا پر ٹھہرا تے ہیں دوسروں کو زمہ دار بنانے کی بجائے ہمیں محنت کا شیوہ اپنانا چاہیے اور کامیابی کی منزل کو طے کرنے میں دن رات ایک کر دینی چاہیے تو کوئی ایسی طاقت نہیں جو ہمیں ہمارے خوابوں کی تعمیل کرنے سے روک سکے